”اک خواب جو ہوا پورا“
تحریر: رمشاء خان
میرپورخاص
پڑھنا ہر کسی کا شوق ہوتا ہے آئیے پڑھتے ہیں ایک ایسے بچے کی کہانی جس کا خواب تھا پڑھنا اور کچھ کرنا۔۔۔۔۔۔۔
جانے دو اماں! اب دیر ہورہی ہے ہوٹل کا مالک پھر ڈانٹے گا۔”قاسم نے ماں سے کہا“
بیٹا! ناشتہ تو کرتے جا! ”قاسم کی ماں جو قاسم سے ناشتہ کرنے کا کہہ رہیں تھیں“
اماں! وہیں کرلوں گا ہوٹل پر! اچھا اماں اللّٰہ حافظ! ”قاسم نے ماں کو اللہ حافظ کیا اور گھر سے نکل گیا “
_______*__________*______________*
ابے! تو نے آج پھر دیر کردی آنے میں آدھے سے زیادہ گاہک آکر بھی چلے گئے چل اب جلدی لگ اپنے کام پر۔
”ہوٹل کے مالک نے قاسم کو ڈپٹا“
چاچا! آج اخبار نہیں آیا کیا؟ ”قاسم نے کام کرتے ہوئے ہوٹل کے مالک سے پوچھا“
آگیا ہے تیرا کیا کام ہے اخبار سے چل تو جلدی جلدی کام ختم کر۔ ”ہوٹل کے مالک نے غصے سے قاسم سے کہا“
السلام علیکم! چاچا! اخبار تو دینا!
وعلیکم السلام! بیٹا! قاسم ادھر آ جلدی جا جاکر صاحب کو اخبار دے کر آ، ”ہوٹل کے مالک نے قاسم کو اخبار پکڑاتے ہوئے کہا“
یہ لو صاحب جی! اخبار! ”قاسم نے آنے والے گاہک کو اخبار پکڑایا “
ادھر آؤ! ادھر بیٹھو!”منور خان نے اخبار پکڑتے ہوئے قاسم سے کہا“
نہیں! صاحب! مالک ڈانٹے گا۔ ”قاسم نے ڈرتے ہوئے کہا“
نہیں ڈانٹے گا یہ بتاؤ تمیں اخبار پڑھنا آتا ہے؟ ”منور نے قاسم سے پوچھا”
نہیں صاحب پڑھنے تو نہیں آتا، لیکن! پڑھنے کا بہت شوق ہے میں تو بس اس میں رنگ برنگی تصویر دیکھتا ہوں۔اور پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ”قاسم نے جواب دیتے ہوئے کہا“
تو تم اسکول پڑھنے کیوں نہیں جاتے؟یہاں کام کیوں کرتے ہو؟ ”منور نے دوبارہ قاسم سے سوال کیا“
قاسم نے جواب دیتے ہوئے، کہا صاحب اگر ہم پڑھے گا تو پھر کھائے گا کہاں سے؟
ہوٹل مالک نے آواز لگائی کہاں رہ گیا قاسم! چل ادھر آ اور صاحب کے لیے چائے لے کر جا۔
آیا چاچا!
یہ لو صاحب گرما گرم دودھ پتی چائے! ”قاسم نے چائے دیتے ہوئے کہا“
اچھا ایک بات بتاؤ اگر تم پڑھنا چاہتے ہو تو بتاؤ میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں ”منور نے قاسم کو جاتے دیکھ جلدی سے کہا“
چھوڑیں صاحب یہاں جو بھی نیا پڑھا لکھا بندہ آتا ہے وہ یہی کہتا ہے لیکن کوئی نہیں پڑھاتا آپ چائے پئیں میں بھی چلا اپنے کام کرنے ”قاسم نے افسوس سے کہا اور اپنے کام کرنے نکل گیا“
منور قاسم کو جاتے دیکھتا رہا!
______*_____________*____________*
ارے صاحب آپ یہاں! اندر آئیں صاحب جی! آپ کو میرا گھر کیسے ملا! ”قاسم نے حیران ہوتے ہوئے ایک ساتھ اتنے سارے سوال کر ڈالے“
میں یہاں ایک کام سے آیا ہوں اور میں نے آپ کے گھر کا پتہ کریم چاچا سے لیا ہے۔ ”منور نے کہا“
یہ کون ہے؟ بیٹا! ”اماں نے قاسم سے پوچھا“
اماں یہ آج ہماری ہوٹل پر چائے پینے آئے تھے۔ ”قاسم نے ماں کو بتایا “
خالہ میں ایک این جی او میں کام کرتا ہوں ہماری تنظیم بچوں کو مفت تعلیم مہیا کرتی ہے اس کے سارے اخراجات ہماری تنظیم اٹھاتی ہے میں آج ایک ہوٹل میں قاسم سے ملا تو میں نے اس سے پوچھا کیا آپ کو پڑھنے کا شوق ہے تو قاسم نے کہا ہاں تو بس پھر میں یہاں آگیا۔ ”منور نے قاسم کی اماں کو تفصیل سے سب بتایا“
اچھا بیٹا میرے قاسم کو بھی بہت پڑھنے کا شوق ہے لیکن کیا کریں غربت اور مہنگائی نے بچے کو پڑھنے کی عمر میں کام پر لگا دیا۔ ”اماں نے افسوس سے کہا“
کوئی بات نہیں خالہ ہماری تنظیم قاسم کونہ صرف پڑھائے گی بلکہ قاسم کو ماہانہ وظیفہ بھی دے گی۔ ”منور نے خوشی سے بتاتے ہوئے کہا“
بہت بہت شکریہ بیٹا اللّٰہ خوش رکھے تمہیں! ”اماں نے منور کو دعا دیتے ہوئے کہا“
آمین اب خوش قاسم! آپ بھی اب کل سے اسکول جاؤ گے ”منور نے قاسم کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا“
مجھے تو بہت خوشی ہورہی کہ میں بھی اسکول جاؤں گا اور وہ اخبار بھی پڑھ سکوں گا۔ ”قاسم نے خوشی سے کہا“
ہاں! کیوں نہیں! اب صرف وہ اخبار ہی نہیں بلکہ ساری کتابیں بھی پڑھ سکو گےتم ”منور نے قاسم کو مسکراتے ہوئے کہا“
__________*__________*___________*
قاسم نے اپنا خواب پالیا! آپ بھی کسی کو اس کے خواب کو پانے کے لیے اس کی مدد کریں کیا معلوم آپ کی مدد سے اس شخص کی زندگی بدل جائے!
ختم شدہ